Elegy of Voices

I wrote this poem back in 1992.

آوازوں کا نوحہ


آوازوں کو دیکھا ہے نوحہ کناں؟
سبھی کے ہیں لب کپکپاتے ہوئے
ہے سیکھا سبھی سے یہ ہم نے یہاں
صداءوں کو کر دو صداءوں میں گم

برہما نے پھونکا مرے دل میں یہ
"آوازوں سے گوندھا ہے میں نے جہاں،
حسیں شوخ رنگ اور چنچل صدائیں،
سریلی، نشیلی، رسیلی صدائیں،
تھیں کچھ زیر لب اور مدھم صدائیں،
بلند بانگ آہنگ، سجیلی صدائیں
بہت سی آوازیں یوں گرم نفس تھیں،
کہ جیسے ہو عاشق کی روح تپاں،
بہت سی آوازوں میں خنکی بھی تھی،
کہ جیسے زمستاں کی ہو سرد رات
آوازیں تو ایسی کہ سن لے جو کوئی
تو روح و بدن میں تفاوت پڑے
کچھ ایسی کہ ان سے میرے دل میں تھی
تڑپتی ہوئی اک نمو کی خلش
انہی سے بنایا ہے میں نے جہاں
انہی کو تو میں نے مجسم کیا
یہ سبزہ، یہ گل، یہ زمیں آسماں
آبشاروں کے جھرنے مچلتے ہوئے،
کوہ و دمن اور صحرا کی ریگ،
انہی سے تو سورج کو گرمی ملی،
انہی سے تو پائی ستاروں نے تاب"

گلستاں میں کرتے ہیں گل گفتگو
دم شب جب سبزے پہ شبنم گرے
فلک پرستاروں سے ہو ہم کلام
سمندر بھی بھیجیں پہاڑوں کے نام
چلتی ہواءوں سے اپنے پیام
مگر ہم جو انساں ہیں رہتے ہیں چپ
کہ جیسے صنم خانہ ء آزر کے بت
صنم خانہء آزر ہے پر شور سے
آوازیں نہیں ہیں صرف شور ہے
ہمی نے کیا ہے آوازوں کوگم

ہمارے دلوں میں ہیں چند خواب بند
چاہتے ہیں ہم ان کی تعبیر پائیں
نہیں جانتے پر کہاں سے یہ لائیں
اسی پر آوازیں ہیں نوحہ کناں

آوازیں ہمیں بس بلاتی رہیں
آوازیں رہیں ہم کو دیتی صدا
آوازیں مگر شور ہی میں ہیں گم۔۔۔
آوازیں زمان و مکاں کی ہیں مائیں
وہ کہتی ہیں لاءو ہمیں خواب دو
ہمیں خواب دو ، ان کی تعبیر لو
اور ہم ہیں کہ جیسے کسی سے شناسا نہیں
ہمارے لیے سب صدائیں ہیں گم
یہی ہے سبب
ہمارے سب خواب گم۔۔۔
ان کی تعبیریں گم۔۔۔
ہم بھی گم

Comments

Popular posts from this blog

A Summary of Ramayana in Urdu (رامائن کا اردو خلاصہ)

Amar Shonar Bangla: An Urdu Translation

(حضور کرشن جی مہاراج) A Brief Biography of Krishna