Kafka's "Before the Law": Urdu Translation
فرانز کافکا: جدید فکشن کے بانیوں میں سر فہرست |
قانون کے سامنے
فرانز کافکا
فرانز کافکا
قانون کے سامنے ایک چوکیدار کھڑا ہے۔ اس چوکیدار کے پاس دور دراز سے ایک شخص آتا ہے اور داخل ہونے کی اجازت طلب کرتا ہے۔ مگر چوکیدار اسے کہتا ہے کہ وہ اس وقت اسے داخلے کی اجازت نہیں دے سکتا۔ وہ شخص کچھ دیر سوچتا ہے اور پھر چوکیدار سے پوچھتا ہے کہ کیا کچھ دیر بعد اسے اجازت مل جائے گی۔ "یہ ممکن ہے۔ مگر اس وقت نہیں۔" چوکیدار کہتا ہے۔ چونکہ حسب دستور دروازہ کھلا ہے اور چوکیدار ایک طرف ہٹ گیا ہے اس لیے وہ شخص ذرا سا ترچھا ہو کے اندر جھانکتا ہے۔ یہ دیکھ کر چوکیدار ہنستا ہے اور کہتا ہے۔"اگر تم ایسا کرنا ہی چاہتے ہو تو میرے منع کرنے کے باوجود کر دیکھو۔ مگر یاد رکھنا، میں ایک طاقتور آدمی ہوں۔ اور دوسرے چوکیدار مجھ سے بھی زیادہ طاقتور ہیں۔ اندر کمروں پر کمرے ہیں اور ہر چوکیدار کے بعد ایک چوکیدار ہے، جو پچھلے چوکیدار سے زیادہ طاقتور ہے۔ تیسرا چوکیدار ہی اتنا ہیبت ناک ہے کہ میں اس کی طرف نظر اٹھا کر دیکھنے کی بھی ہمت نہیں کر سکتا۔" دور دراز سے آئے ہوئے شخص کو ان مشکلات کا کوئی اندازہ نہیں ہے۔ اس کا خیال ہےکہ قانون کولازماً ہر انسان کے لیے، ہر وقت قابل رسائی ہونا چاہیے۔مگر اب جب اس نے فر کے کوٹ میں ملبوس بڑی اور نوکیلی ناک اور لمبی سیاہ داڑھی والے اس چوکیدار کو قریب سے دیکھا تو اس نے فیصلہ کر لیا کہ داخلے کی اجازت ملنے تک انتظار کرنا ہی بہتر ہے۔چوکیدار اسے ایک سٹول دےکر دروازے کے قریب بیٹھنے کی اجازت دے دیتا ہے۔یہاں وہ دنوں اور پھر سالوں تک بیٹھا رہتا ہے۔ وہ بار بار اندر جانے کی کوشش کرتا ہے اور چوکیدار کو بار بار کے تقاضوں سے تنگ کرتا ہے۔ چوکیدار اکثر اس سے گفتگو کرتا ہے اور اس کے گھر اور دوسری چیزوں کے بارے میں پوچھتا ہے۔ سوالات ایسی ہی لا تعلقی سے کیے جاتے ہیں جیسے بڑے لوگ سوال کیا کرتے ہیں اور ہر مرتبہ گفتگو کا اختتام اسی پر ہوتا ہے کہ ابھی اسے اندر جانے کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔ اس شخص کے پاس کافی زاد راہ ہے، اور وہ ہر چیز ، خواہ وہ کتنی ہی قیمتی کیوں نہ ہو،چوکیدار کو بطور رشوت دے دیتا ہے۔ چوکیدار یہ کہہ کر ہر چیز قبول کر لیتا ہے۔"میں یہ صرف اس لیے قبول کر رہا ہوں کہ کہیں تم یہ نہ کہو کہ تم فلاں چیز مجھے دینا بھول گئے تھے۔" ان سب سالوں میں اس شخص کی توجہ مسلسل چوکیدار کی طرف ہی رہتی ہے۔ وہ دوسرے چوکیداروں کو بھول جاتا ہے اور یہی پہلا چوکیدار اسے قانون تک رسائی میں سب سے بڑی رکاوٹ محسوس ہوتا ہے۔ وہ اپنی بد قسمتی کو کوستا ہے ، شروع شروع میں بڑی جرات کے ساتھ بآواز بلند، اور پھر بڑھاپے میں بڑبڑاتے ہوئے۔ اس میں ایک بچپنا سا آ جاتا ہے۔ اپنی اس سالہا سال کی تگ ودو میں اگر اسے چوکیدار کے کالر پر مکھی بھی بیٹھی نظر آتی ہے تو وہ اسے بھی کہتا ہے کہ وہ چوکیدار کا ارادہ بدل دے۔ آہستہ آہستہ اس کی بینائی جاتی رہتی ہے اور اسے یہ بھی نہیں پتہ چلتا ہے دنیا میں واقعی اندھیرا ہے یا اس کی آنکھیں اسے دھوکا دے رہی ہیں۔ لیکن اس اندھیرے میں بھی وہ اس روشنی سے آگاہ ہے جو قانون کے دروازے سے مسلسل آرہی ہے۔ اب اس کی زندگی کا کوئی بھروسہ نہیں۔ مرنے سے پہلے، ان تمام طویل سالوں کے تجربے اس کے ذہن میں صرف ایک نکتے پر جمع ہو جاتے ہیں، ایک سوال جو اس نے اب تک چوکیدار سے نہیں کیا۔ وہ اشارے سے اسے اپنے پاس بلاتا ہے ، کیونکہ اب وہ اپنے اکڑے ہوئےجسم کو نہیں اٹھا سکتا۔ چوکیدار جھک کر اس کی بات سنتا ہے کیونکہ دونوں کے قد کا فرق بہت بڑھ چکا ہے۔ "تم اب کیا معلوم کرنا چاہتے ہو، تم جو مطمئن ہی نہیں ہوتے؟" چوکیدار پوچھتا ہے۔ وہ شخص کہتا ہے۔"ہر کوئی قانون تک پہنچنے کی کوشش کرتا ہے۔ تو پھریہ کس طرح ممکن ہے کہ ان تمام سالوں میں میرے سوا کبھی کسی نے اندر داخل ہونے کی اجازت نہ چاہی؟" چوکیدار جان لیا ہے کہ اب اس شخص کا آخری وقت آن پہنچا ہے، اس کی تمام حسیں ختم ہو تی جارہی ہیں، اس لیے وہ اس کے کان میں چیخ کر کہاس ہے،" کوئی دوسرا کبھی اس دروازے سے داخل نہیں ہو سکتا تھا، کیونکہ یہ دروازہ صرف تمہارے لیے بنا تھا۔ اور اب میں اسے بند کرنے جا رہا ہوں۔"
Nice story - what do you think is the message here? That law of the universe is presented uniquely to everyone?
ReplyDeleteLike your blog - keep it up.
Could not infer some message, but enjoyed it very much.
DeleteI really thank you for appreciating the blog.